پاکستان نیوز پوائنٹ
اسماعیلی کمیونٹی کے روحانی پیشوا اور 49 ویں امام، پرنس کریم آغا خان پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں انتقال کر گئے ان کی عم 88 برس تھی،وزیراعظم شہبازشریف نے پریس کریم آغاخان کے انتقال پر اظہارتعزیت کیا ہے ۔پرنس کریم آغا خان کی نمازہ جنازہ لزبن میں ادا کی جائے گی تاہم تدفین کے مقام کا اعلان فی الحال نہیں کیا گیا ، پرنس کریم آغا خان کے انتقال پردنیا بھر میں جماعت خانوں میں خصوصی دعائیں شروع کردی گئی ہیں۔ نئے پیشوا کے اعلان تک اسماعیلی کمیونٹی کی آفیشل ویب سائٹ پر درود کی تسبیح جاری رہے گی۔پرنس کریم آغا خان کو 11 جولائی1957 میں امام بنایا گیا تھا ۔اس وقت ان کی عمر 20 برس تھی۔ پرنس کریم کے دادا سر سلطان محمد شاہ آغا خان اسماعیلی تھے۔ پرنس کریم آغا خان نے اپنی زندگی پسماندہ طبقات کی زندگیوں میں بہتری لانے میں صرف کی۔ وہ اس بات پر زور دیتے رہے تھے کہ اسلام ایک دوسرے سے ہمدردی، برداشت اور انسانی عظمت کا مذہب ہے۔ایک اعلامیے کے مطابق شاہ کریم الحسینی المعروف پرنس کریم آغا خان کی وفات پر اسماعیلی کمیونٹی میں گہرے غم کا سامنا ہے۔ انہوں نے اسماعیلی کمیونٹی کی رہنمائی اور فلاحی منصوبوں میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔ان کے انتقال کے بعد اسماعیلی کمیونٹی کے 50 ویں امام کی نامزدگی کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے۔پرنس کریم آغا خان نے اپنی زندگی میں تعلیمی، ثقافتی اور معاشی ترقی کے مختلف منصوبوں کی سرپرستی کی، جنہوں نے لاکھوں افراد کی زندگیوں میں بہتری لانے کا کام کیا۔ ان کی رہنمائی اور فلاحی کاموں کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔پاکستان میں پرنس کریم آغا خان کو ستارہ امتیاز اور ستارہ پاکستان سے نوازا گیا۔اسماعیلی کمیونٹی کے نئے امام کی نامزدگی کے بارے میں مزید تفصیلات جلد فراہم کی جائیں گی، نئے امام کے انتخاب تک ویب سائٹ پر درود کی تسبیح جاری رہے گی۔وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اسماعیلی کمیونٹی کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان کی وفات پر اظہار تعزیت کیا ہے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر پیغام جاری کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ میں پرنس کریم آغا خان کے انتقال پر اسماعیلی برادری کے غم میں برابر کا شریک ہوں ، کریم آغا خان ایک قابل رہنما تھے جن کی زندگی دنیا بھر میں مختلف برادریوں کی فلاح کے لیے وقف تھی، انہوں نے غربت کے خاتمے، پسماندہ افراد کی حمایت، صحت اور صنفی مساوت کے لیے انتھک کوشش کی۔ان کا کہنا ہے کہ وہ ضرورت مندوں کے لیے امید کی کرن تھے، انہوں نے بے شمار زندگیوں پر ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
