پاکستان نیوز پوائنٹ
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے فیصلے کیخلاف وفاقی حکومت کی انٹراکورٹ اپیلیں منظور کرلیں،اپیلوں کی منظوری سے نیب ترامیم بحال ہو گئیں،عدالت نے کہاکہ بانی پی ٹی آئی ثابت نہیں کر سکے کہ نیب ترامیم غیرآئینی ہیں،سپریم کورٹ نے کہاکہ تین رکنی بنچ کا فیصلہ ثابت نہیں کر سکا کہ نیب ترامیم آئین سے متصادم تھیں۔سپریم کورٹ کا فیصلہ پانچ صفر سے دیا ہے۔ وفاقی حکومت کی انٹراکورٹ اپیلوں پر5رکنی بنچ کی سربراہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کی تھی،جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل 5رکنی بنچ میں شامل تھے،جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی بھی بنچ کا حصہ تھے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کو قانون سازی کو ہر ممکن صورت میں برقرار رکھنا چاہئے،نیب ترامیم کو خلاف آئین ثابت نہیں کیا جا سکا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے میں اضافی نوٹ بھی لکھا، جسٹس اطہر من اللہ نے حکومت کی اپیل خارج کردی، جسٹس اطہر من اللہ نے اضافی نوٹ میں کہا ہے کہ حکومت کی اپیل ناقابل سماعت ہے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے بھی اضافی نوٹ لکھا،جسٹس حسن اظہر رضوی کا فیصلے سے اتفاق لیکن وجوہات سے اختلاف کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہاکہ چیف جسٹس اور ججز پارلیمان کیلئے گیٹ کیپر کا کردار ادا نہیں کر سکتے، پارلیمان اور عدلیہ کا آئین میں اپنا اپنا کردار واضح ہے۔ یاد رہے کہ نیب ترامیم پی ڈی ایم کے دور حکومت میں منظور کی گئی تھی۔سپریم کورٹ نے 15ستمبر2023کو نیب ترامیم کالعدم قرار دیں،سپریم کورٹ نے 10میں سے 9نیب ترامیم کالعدم قرار دی تھیں،وفاقی، صوبائی حکومت نے سپریم کورٹ میں انٹراکورٹ اپیلیں دائر کیں،نیب ترامیم میں بہت سے معاملات نیب کے دائرہ اختیار سے نکالے گئے،نیب ترامیم کو قومی احتساب آرڈیننس 1999کے آغاز سے نافذ قراردیا گیا،نیب ترامیم کےتحت نیب 50کروڑ سے کم کے معاملات کی تحقیقات نہیں کرسکتا، نیب 100سے زیادہ متاثرین ہونے پر دھوکا دہی مقدمے کی تحقیقات کر سکتا ہے،زیادہ سے زیادہ 14دن کا ریمانڈ بعد میں 30دن تک بڑھ گیا،نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس معاملات پر کارروائی نہیں کر سکتا تھا۔