وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے ڈیمز فنڈ میں جمع ہونے والی رقم مانگ لی

پاکستان نیوز پوائنٹ
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے ڈیمز فنڈ میں جمع ہونے والی رقم مانگ لی۔عدالتی حکمنامے میں چیف جسٹس نے لکھا کہ ڈیمز فنڈز کی رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں رکھنی ہے یا نہیں؟ کیس میں طے کریں گے، عمل درآمد بینچ کا اختیار آئین میں کہاں لکھا ہوا ہے؟ سپریم کورٹ کو اپنے حکم پر عملدرآمد کرانے کا اختیار نہیں ہے دیا میر بھاشا اور مہمند ڈیمز فنڈز کے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی 4 رکنی بینچ نے سماعت کی ، بینچ میں جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس شاہد بلال بھی شامل ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے درخواست کی کہ ڈیمز فنڈز کے پیسے وفاق اور واپڈا کو دیے جائیں جس کا اکاونٹ سپریم کورٹ کی نگرانی میں اسٹیٹ بنک میں کھلا ہوا ہے ۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے پوچھا کہ ڈیمز فنڈز میں کتنی رقم ہے تو وکیل واپڈا سعد رسول نے عدالت کو بتایا کہ تقریبا 20 ارب روپے ڈیمز فنڈز میں ہیں ۔جسٹس قاضی فائز نے پوچھا اس کیس کا آغاز کیسے ہوا تھا ۔ جس پر وکیل واپڈا نے بتایا کہ واپڈا کے مقدمات کے دوران سپریم کورٹ نے 2018 میں ازخود نوٹس لیا تھا اور سپریم کورٹنے 17 سماعتیں کیں تھی چیف جسٹس نے پوچھا کہ واپڈا کے دیگر بھی کئی منصوبے ہیں کیا ہر منصوبہ سپریم کورٹ کی نگرانی میں چلتا ہے ۔ واپڈا کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ڈیمز کی تعمیر کے معاملے پر پرائیویٹ فریقین کے درمیان بھی تنازعات تھے، سپریم کورٹ نے پرائیویٹ فریقین کے تنازعات متعلقہ عدالتوں کی بجائے اپنے پاس سماعت کے لیے مقرر کیے، ہماری استدعا ہے پرائیویٹ فریقین کے تنازعات متعلقہ عدالتی فورمز پر ہی چلائے جانے چاہیں۔ سپریم کورٹ نے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیمز فنڈز کیس کی سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ یہ مناسب ہے سابقہ اٹارنی جنرل خالد جاوید اور انور منصور کو معاونت کےلیےطلب کیا جائے، ڈیمز فنڈز کیس کے عدالتی معاون مخدوم علی بھی معاونت کےلیے آئندہ سماعت پر پیش ہوں۔جسٹس عرفان سعادت کا کہنا تھا پہلے کیس 5 رکنی بینچ سن چکا ہے، ہمارا بنچ چار رکنی ہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے 4 رکنی بینچ کے سامنے کیس مقرر کرنے کی منظوری دی تھی، ہم نظرثانی نہیں کر رہے، اگر ضروری سمجھا تو 5 رکنی بینچ بھی بنا سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *