پاکستان نیوز پوائنٹ
ایران کے صدر مسعود پیزشکیان نے اپنی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ کر کے ملک میں افراط زر کو بڑھا رہی ہے۔ جس سے پابندیوں کی زد میں ملک پر مزید دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ایران میں ماہ ستمبر کے دوران شرح افراط زر 49 فیصد کے قریب تھی۔ یہ اعداد و شمار ایرانی حکام کی طرف سے دیے گئے ہیں۔ تاہم صدر پیزشکیان کا کہنا ہے کہ بیوروکریسی افراط زر کو مزید تیز کر رہی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہم خود حکومت کے لوگ افراط زر بڑھانے کے ذمہ دار ہیں۔ پیزشکیان نے ان خیالات کا اظہار مغربی کردستان صوبے میں تقریر کے دوران کیا ہے۔ یاد رہے ایرانی معیشت امریکی و یورپی پابندیوں کے باعث بری طرح تباہ حال ہے۔ یہ پابندیاں ایران کے جوہری پروگرام کی وجہ سے عائد کی گئی ہیں جو مسلسل پچھلے کئی سال سے جاری ہیں اور ان میں اضافہ بھی کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب ایران جوہری پروگرام کے حوالے سے مغربی الزامات کو رد کرتا ہے اور مؤقف اختیار کرتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے، جوہری ہتھیاروں کے لیے نہیں۔ ایرانی معیشت کو 12 روزہ جنگ نے مزید تباہی کے کنارے سے لگایا ہے۔ جب اسرائیل اور امریکہ دونوں نے اس جنگ کے دوران ایرانی جوہری پروگرام کو بدترین بمباری کا نشانہ بنایا۔ اس جنگ کی وجہ سے ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری پروگرام پر جاری مذاکرات بھی معطل ہو کر رہ گئے ہیں۔ یاد رہے ایران میں سرکاری ملازمین کی تعداد 24 لاکھ ہے۔ جو سول کے شعبے میں کام کرتے ہیں ۔ فوج سے وابستہ کارکن اور حکام کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ انٹیلی جنس کارکنوں کو بھی سول حکام میں شامل نہیں کیا جاتا۔ صدر پیزشکیان نے اس موقع پر سرکاری حکام سے کہا کہ وہ ملک کی معاشی ابتری کو دیکھتے ہوئے اپنے غیر ضروری اخراجات میں کمی کریں تاکہ معاشی بوجھ شہریوں پر مزید منتقل نہ ہو۔
