پاکستان نیوز پوائنٹ
پاکستان کے آئین میں ترامیم کے مجموعہ ” 27ویں ترمیم”کے مسودہ پر قومی اسمبلی میں بحث و تمحیص کے بعد قومی اسمبلی نے کچھ مزید ترامیم کے ساتھ سینیٹ کی بھیجی ہوئی ترامیم کے 27 ویں مجموعے کو منطور کر لیا ہے۔ ترامیم کی منظوری کے لئے قومی اسمبلی کے 231 ارکان نے ووٹ دیا۔ قومی اسمبلی میں سینیٹ کی منطور کردہ ستائیویں ترامیم کا مجموعہ غور کے لئے پیش کیا گیا تو اس مسودہ کی تمام شقوں پر مفصل بحث ہوئی۔ اس دوران قومی اسمبلی کے ارکان نے سینیٹ کے منطور کرہ مسودہ میں مزید کچھ ترامیم، اضافے تجویز کئے، ان سب پر بحث کے بعد ترامیم کے مجموعہ کی شق وار منظوری یا نامنظوری کے لئے ووٹنگ کا عمل ہو ا جو چند لمحے پہلے مکمل ہوا ہے۔ سینیٹ میں منطور کئے گئے بل کو آج قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا۔ بل میں قومی اسمبلی کے ارکان نے بحث کے دوران مزید ترامیم پیش کیں۔ اب بل میں مزید ترامیم کی شق دار منظوری کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 27 ویں آئینی ترمیم کی تحریک پیش کی اور کہا کہ 27 ویں آئینی ترمیم کے خدوخال سینیٹ میں پیش کردیے تھے، قانون اور آئین میں ترمیم ایک ارتقائی عمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی ہی چیف جسٹس پاکستان رہیں گے۔ اس کے بعد 27 ویں آئینی ترامیم پر شق وار ووٹنگ کی گئی اور تمام 59 شقیں منظور کرلی گئیں، ترمیم کی حمایت میں 233 ارکان نے ووٹ دیا جبکہ مخالفت میں 4 ووٹ آئے۔جمعیت علمائے اسلام نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ سپیکر ایاز صٓدق نے ترامیم کے 27 ویں مجموعے کی حتمی منطوری کے عمل کا قواعد کے مطابق آغاز کروایا، ارکان نے اپنی نشستوں سے اٹھ کر مخصوص دروازے سے باہر جا کر ترمیم کے حق میں ووٹ شمار کروائے۔ یہ عمل مکمل ہونے کے بعد سپیکر ایاز صادق نے اعلان کیا ہے کہ قومی اسمبلی نے 27 وین آئینی ترمیم کی دو تہائی اکثریت سے منظوری دے دی ہے۔ اپوزیشن کے ارکان نے اس سارے عمل میں بحث کے مرحلہ تک حصہ لیا۔ وہ بلاول بھٹو اور دیگر ارکان کی اہم تقاریر کے دوران شور مچاتے رہے۔ جب سپیکر نے ترامیم کی شق وار منطوری کا عمل آغاز کروایا تو اس سے پہلے اپوزیشن کے ارکان ہال سے باہر نکل گئے۔ انہوں نے ووٹنگ کے عمل کا بائیکاٹ کیا۔ قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں موجود صحافی اجلاس کی لمحہ بہ لمحہ کوریج کر رہے ہیں۔ ان کی رپورٹ کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم میں اضافی ترامیم قومی اسمبلی میں پیش کردی گئیں۔ حکومت اور اپوزیشن کی اضافی ترامیم الگ فہرست میں موجود ہیں، قومی اسمبلی سے اضافی ترامیم کی منظوری ہونے کے بعد اس مسودہِ قانون کو سینیٹ کی منطوری کے لئے دوبارہ سینیٹ کو بھیجا جائے گا کیونکہ سینیٹ نے جن ترامیم کے مسودوں کو منطوری دے کر قومی اسمبلی بھیجا تھا، اب ان میں کچھ مزید ترامیم شامل ہو چکی ہیں۔
سینیٹ سے ان اضافی ترامیم کی منطوری یا نا منظوری حاصل ہونے کے بعد یہ طے ہو گا کہ اگر پاکستان کے عوام کے منتخب نمائندوں کے دونوں ایوانوں سے ان ترامیم کو منظوری مل چکی ہے تو انہیں نافذ العمل بنانے کے لئے صدرِ مملکت کی منظوری حاصل کی جائے۔
اس مقصد کے لئے وزیراعظم شہباز شریف ایک سمری لکھ کر صدر مملکت کو ترامیم کے پارلیمنٹ سے منطوری کئے جا چکے مسودہ کے ساتھ ایک سمری لکھ کر صدر مملکت آصف علی زرداری کو بھیجیں گے، جو پارلیمنٹ کی منطور کردہ تمام قانون سازی کو منظور کر کے اسے نافذ العمل بنانے کا اختیار رکھتے ہیں۔ صدرِ مملکت مناسب سمجھیں تو قانون سازی کے مسودہ کو دوبارہ غور کرنے کے لئے حکومت کے ذریعہ پارلیمنٹ کو بھیج سکتے ہیں۔ 27 ویں آئینی ترمیم بل میں بغاوت سے متعلق آرٹیکل 6 میں ترمیم کا امکان ہے، آئین کے آرٹیکل 6 کی شق 2 اے میں ترمیم کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق سینیٹ کے منطور کردہ مسودہ کے متعلقہ متن میں ترمیم کر کے سپریم کورٹ کے ساتھ وفاقی آئینی عدالت کا نام بھی شامل کیا جائے گا۔ اس اضافہ کے بعد متن مزید واضح ہو جائے گا؛ بغاوت کے کسی ایسے عمل کو جو ذیلی شق 2 یا 1 میں مذکور ہو کسی عدالت بشمول وفاقی آئینی عدالت، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی جانب سے توثیق نہیں دی جائے گی۔
پی ٹی آئی کے بانی کے پسندیدہ رکن قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی نے قومی اسمبلی کے اہم ترین اجلاس کے دوران قوم کی تاریخ کے اہم موڑ پر پیش ہونے والی ترامیم کے 27 ویں مجموعہ پر کوئی بحث مباحثہ نہیں کیا، انہوں نے ترامیم کے ھق مین یا ان کی مخالفت میں کوئی دلیل نہیں دی، بس مخالفت کی، وہ بھی اس طرح کہ27 ویں ترمیم کے بل کی جو کاپی ان کے ڈیسک پر دی گئی تھی، انہوں نے وہ پھاڑ دی۔ 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی کے اجلاس میں محمود خان اچکزئی اظہار خیال کے لیے کھڑے ہوئے تو انہوں نے 27 ویں ترمیم کے بل کی کاپی پھاڑ دی۔ محمود اچکزئی نے کہا کہ یہ حکومت” فارم 47″ پر قائم کی گئی ہے، اب یہ بتائیں کیا ایسی پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیا جا سکتا ہے۔
