پاکستان نیوز پوائنٹ
صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور عرب ممالک کا دباؤ کام نہ کر سکا۔ حماس نے اسرائیل کے ساتھ غزہ میں جنگ بندی کی غرض سے ہوسٹیج ڈیل میں “ناقابلِ قبول” تبدیلیوں کا مطالبہ کر دیا اسرائیل کے وزیراعظم کے دفتر نے انکشاف کیا ہے کہ حماس یرغمالیوں کے معاہدے کی تجویز میں ناقابل قبول تبدیلیاں چاہتی ہے۔ وزیر اعظم نیتن یاہو کے دفتر نے ایک بیان میں تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی مذاکراتی ٹیم آج اتوار کو یرغمالیوں سے مذاکرات کے لیے قطر جائے گی۔ پی ایم آفس کا کہنا ہے کہ ”حماس قطری تجویز میں جو تبدیلیاں کرنا چاہتی ہے وہ کل رات ہمیں پہنچائی گئی ہیں اور یہ تبدیلیاں اسرائیل کے لیے قابل قبول نہیں”۔ ثالثی کی کوششوں میں شامل ایک ذریعے کے مطابق حماس تین بنیادی تبدیلیاں چاہتی ہے۔ قطر کے تجویز کردہ پلان میں حماس یہ تبدلیاں چاہتی ہے: مستقل جنگ بندی پر بات چیت اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کوئی معاہدہ نہیں ہو جاتا۔ حماس نے کہا ہے کہ غزہ کے لوگوں کے لئے امداد مکمل طور پر اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے حمایت یافتہ میکانزم کے ذریعے دوبارہ شروع کی جائے۔ اور یہ کہ IDF مارچ میں پچھلی جنگ بندی کے خاتمے سے پہلےوالی اپنی پوزیشنوں پر واپس آجائے۔ اس سے پہلے کل ثالثی کے عمل سے باخبر ایک ڈپلومیٹک ذریعہ نے دعویٰ کیا تھا کہ حماس نے امریکہ کی سرپرستی سے طے کی گئی نئی تجویز پر مثبت جواب دیا ہے۔ آج جو چیز سامنے آئی وہ درحقیقت بہت بڑا اختلاف ہے۔ غزہ میں امدادی سامان کی غزہ فاؤنڈیشن کے ذریعہ تقسیم کا نیا نظام اقوام متحدہ اور اس سے منسلک ایجنسیوں کے پہلے کام کر رہے نظام کے متبادل کے طور پر بنایا گیا ہے اور یہ کام صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوشش سے کیا گیا ہے۔ اسرائیل کی فوج نے جنگ بندی ٹوٹنے کے بعد غزہ میں نیا سکیورٹی منصوبہ بنا کر اسرائیل سے ملحق غزہ کے علاقوں میں بفر زون بنایا اور بہت سے علاقوں میں حماس کے کنٹرول کو ختم کرنے کے لئے سٹریٹیجک پوائنٹس پر اپنی موجودگی بڑھائی ہے۔ بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حماس کی تجویز کردہ تبدیلیاں ایک بار پھر مذاکرات کو ڈیڈ لاک کی طرف لے جانے کا پوٹینشل رکھتی ہیں۔
