پاکستان نیوز پوائنٹ
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستیں منظور کرلیں، عدالت نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کا 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔اس سے قبل کیس سننے والے آئینی بینچ کے 11 ججوں میں شامل جسٹس صلاح الدین پنہور نے کیس سننے سے معذرت کرلی. جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ حامد خان ایڈووکیٹ نے ان پر اعتراض کیا، عوام میں جج کی جانبداری کا تاثر جانا درست نہیں ہے اس لیے بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا۔بینچ ٹوٹنے کے بعد آئینی بینچ نے وقفہ کیا اور 10 ججوں کے ساتھ دوبارہ سماعت شروع کی جبکہ حامد خان ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ 13 ججوں کے فیصلے پر نظر ثانی 10 جج نہیں کر سکتے۔حکومتی متاثرہ ارکان کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کہ اگر کوئی جج کیس سننے سے معذرت کر لے تو بقیہ ججوں کا بینچ فل کورٹ ہی تصور کیا جاتا ہے جبکہ عدالت نے آئینی بینچ کی تشکیل پر حامد خان کا اعتراض مسترد کردیا۔جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی آٸینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی۔ اس موقع پر مخدوم علی خان نے دلاٸل دیے۔سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جواب الجواب کی حد تک دلائل محدود رکھیں، جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کوئی نئی بات نہیں کروں گا.جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ خواہش ہے کہ سپریم کورٹ کا پرانا نظام بحال ہونا چاہیئے، بہت ہوچکا ہے،مخدوم علی خان نے کہا کہ مختصر حکم نامے میں رول 94 کو غیر آئینی نہیں کہا گیا، عدالت نے تفصیلی فیصلے میں ایسا کیا، مختصرحکم نامے سے متصادم تفصیلی فیصلہ برقرار نہیں رہ سکتا۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ مختصر آرڈر میں ہم اتنا ہی کہتے ہیں وجوہات بعد میں دیں گے، شارٹ آرڈر تو بالکل ہی مختصر ہوتا ہے.یہ کیسے کہہ سکتے ہیں جو شارٹ آرڈر میں نہیں وہ تفصیلی میں نہ آئے، سب کچھ شارٹ آرڈر میں ہو تو تفصیلی کی ضرورت کیا ہے؟ جس پر وکیل نے کہا کہ جس چیز کو شارٹ آرڈر میں غیرقانونی نہیں کہا اسے تفصیلی میں کیسے کہہ سکتے؟۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ تفصیلی فیصلے میں مختصر حکم نامے سے کہاں انحراف کیا گیا؟ شارٹ آرڈر کے حق میں ہم پچاس سو وجوہات لکھ سکتے ہیں، جو دلائل دیے گئے جواب الجواب میں انہی پر جواب دیا جائے، میں چاہتا ہوں سپریم کورٹ کا وہی وقار، عزت بحال ہو، جس کا جو دل چاہتا ہے کہہ جاتا ہے کوئی پکڑ دھکڑ نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ایس آئی سی بارے 13 ججز کا متفقہ فیصلہ تو وہ مان ہی رہے ہیں،. نظرثانی درخواست میں ریلیف لینے کے لیے عاجز ہونا پڑتا ہے، جو چیز ہنس کر خوشی سے لے سکتے ہیں وہ لڑ کر نہیں لیا جاسکتا، کسی کی تضحیک کرکے کچھ بھی نہیں لیا جاسکتا۔وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں نےایک ایسی جماعت میں شمولیت کی جسےمخصوص نشستیں نہیں مل سکتی تھیں، اگر سب آزاد امیدوار نئی جماعت بھی بنا لیں تو بنا سکتے ہیں، ایسی صورت میں بھی مگرانہیں مخصوص نشستیں نہیں مل سکتی، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کہہ رہےمخصوص نشستوں کے لیے عام انتخابات میں کم ازکم ایک نشست جیتنا لازم ہے۔جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ عدالتیں سماعت میں کسی فریق کی پارٹی نہیں بنتی، جو آپ نے پڑھا اس سے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی نے پوری قوم کو ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے.اصل غلطی پی ٹی آئی کے وکیلوں کی ہیں جن کی ابھی اور تربیت کی ضرورت تھی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ میں نے یہ کہا کہ جنہوں نے غلطی کی پی ٹی آئی تحقیقات کروائے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے کبھی کیس میں فریق بننے کی درخواست نہیں کی۔جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ درخواست جو دائر ہوئی اس میں فریق بنانے کا لکھا ہوا ہے، کیا انتحابات سے متعلق مقدمات میں طریقہ کارضروری ہوتا ہے.مکمل انصاف کا اختیار اس کیس میں کیسے استعمال نہیں ہوسکتا، جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ طریقہ کار کسی بھی کام میں بہت ضروری ہوتا ہے،جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پشتوں کی ایک کہاوت ہے، جس میں ایک شخص نے کسی کو بیل کچھ روز کے لیے دیا، جب وہ شخص بیل واپس لینے گیا تو جس نے بیل لیا تھا اس نے بیل کو بھی اور مالک کو بھی گالیاں دی، اس وقت مالک بولا یہ میری غلطی ہے نہ بیل دیتا نہ آج گالیاں سنتا، یہ پی ٹی آئی والا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، ہم نے وہ دے دیا جو مانگا ہی نہیں گیا تھا، پھر بھی ہمیں گالیاں پڑھ رہی ہیں۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت نے جذبات میں نہیں قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میں نے اسٹاف کے ساتھ بیٹھ کر کاغذات نامزدگی دیکھے، کچھ لوگ غلط بیانی سے قوم کو گمراہ کرتے ہیں، ہم نے قوم کو گمراہ نہیں حقیقت بتانی ہے، ذاتی علم پر بطور گواہ آسکتا ہوں جج نہیں، پی ٹی آئی نے آزاد امیدواروں کو خود دھکا دیا کہ اس جماعت میں جائیں۔ وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ جو چیزیں زیر بحث نہیں آئیں اس پر فیصلہ کیسے دیا گیا؟ اکثریتی فیصلے میں درخواست سے ہٹ کر فیصلہ دیا گیا، فیصلے کے مکمل انصاف کے پیرا گراف پر نظرثانی ہونی چاہیئے۔
