وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ایف بی آر کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی بڑھ کر 10.3 فیصد ہو گیا ہے

پاکستان نیوز پوائنٹ
اجلاس میں وزیر اعظم ، اویس لغاری ،خواجہ آصف، احسن اقبال ،سمیت دیگر ارکان اسمبلی موجود ہیں ، خورشید شاہ بھی اسمبلی میں موجود ہیں ۔ اپوزیشن نے اجلاس میں ہنگامہ جاری رکھا ، بجٹ کاپیوں کو پھاڑ کر پھینکا گیا وزیر خزانہ اورنگزیب نے بجٹ تقریر شروع شور شرابے میں تقریر کردی ، وزیر خزانہ کا اتحادی رہنماؤں کا شکریہ کیا ، یہ بجٹ نہایت اہم اور تاریخی موقع پر پیش کیا جارہا ہےبھارت کے خلاف کامیابی پر پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کو مبارکباد پیش کرتا ہوں انہوں نے کہا ہم نے گزشتہ سال معیشت کے لیے کئی اہم اقدامات کیے،ہمیں اپنی معیشت کو مستحکم اور عوام کہ فلاح کو یقینی بنانا ہے،ہمیں کئی کامیابیاں حاصل ہوئیں،اس سال سرپلس کرنٹ اکاؤنٹ متوقع ہے،ہم پر امید ہیں ترسیلات زر کا حجم ہے ،قومی عزم اور یکجہتی کو بروئے کار لاتے ہوئے ہماری توجہ اب معاشی ترقی پر ہے معاشی اصلاحات کے ذریعے معاشی استحکام لایا گیا،معیشت کی بہتری کے لیے کئی اقدامات کیے،افراط زر میں نمایاں کمی ہوئی اور ترسیلات زر 10 ماہ میں 36ارب ڈالر رہیں 38 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گاحکومت کو سخت فیصلے کرنے پڑے ۔عوام نے بھی متعدد قربانیاں دیںہماری حکومت نے مہنگائی پر قابو پانے کیلئے اقدامات کیے،وزیر اعظم کی قیادت میں حکومت نے مختلف سیکٹرز میں کئی اہم کامیابیاں حاصل کیں،ٹیکنالوجی کے ساتھ انسانی وسائل کی ترقی پر بھی سرمایہ کاری کر رہے ہیں،منصوبے کے ابتدائی نتائج انتہائی حوصلہ افزا رہے ہیں جعلی ریفنڈز کلیمز کو بلاک کیا گیا،قانون پر عمل پیرا امپورٹرز کو سہولت فراہم کی گئی،صارف دوست ریٹرن متعارف کروایا جارہا ہے،تاریخ میں پہلی بار آئی ایم ایف نے 389 ارب کے محصولات کا تسلیم کیا ہے،منی بجٹ کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا تھا،کوئی منی بجٹ نہیں آیا ، نہ ہی کوئی اضافی ٹیکس لگایا گیا جی ڈی پی کے 2.4 فیصد کے برابر پرائمری سوپلس حاصل کیا، کسٹم ڈیوٹی کی سلیب کم کر کے 4 کی جارہی ہےحکومتی اقدامات سے افراط زر کم ہو کر 4.7 فیصد پر آ گئی ، کسٹم ڈیوٹی کی سلیب کم کرکے 4 کی جارہی ہےزیادہ سے زیادہ کسٹم ڈیوٹی کی حد 20 سے کم کرکے 15 کی جارہی ہےاصلاحات سے پاکستان اور اوسط ٹیرف خطے میں سب سے کم ہو جائے گا کم اوسط ٹیرف سے پاکستان عالمی منڈی میں ویتنام اور انڈونیشیا کا مقابلہ کرسکے گا ہماری ترجیح ایسی معیشت کی تشکیل ہے جو ہر طبقے کو ترقی کے ثمرات دے ،یہی ویژن ہمین ایسے پاکستان کی طرف بڑھاتا ہے جہاں ترقی ہر فرد کی دہلیز تک پہنچے، ہم نے گزشتہ سال معیشت کی بہتری کیلئے کئی اہم اقدامات کیئے، جن کے نتیجے میں مالی نظم و ضبط میں بہتری آئی اور کئی کامیابیاں حاصل ہوئیں ترسیلات زر موجودہ مالی سال کے 10 ماہ میں 31 فیصد اضافے کے ساتھ 31.2 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ، امید ہے کہ موجودہ مالی سال کے اختتام تک ترسیلات کا حجم 37 سے 38 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا، سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں دو ارب ڈالر کا اضافہ ہو چکاہے ،موجودہ سال کے اختتام تک 14 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے ، اقتصادی بہتری کیلئے حکومت کو سخت فیصلے کرنے پڑے عوام نے بھی متعدد قربیانیاں دیں جس کے مثبت نتائج سامنے آئے، ہم بجلی کی قیمت میں کمی کی ہے،ہم نے این ٹی ڈی سی کی تنظیم نو کی ہے،ہمارا عزم ہے پانچ سالوں میں کمپنیوں کے نقصانات کو ختم کر دیا جائے گا،سستی بجلی کے حصول کے لئے جامع منصوبہ بندی کر لی ہے ،تیل اور گیس کے شعبے میں اصلاحات کی ہیں،ریکوڈک میں کانیں اہم اثاثہ ہیں،اس منصوبے کے تحت 41 ہزار 500 ملازمتیں فراہم ہوں گی،گوادر تک ریل اور سڑک کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی جارہی ہے معیشت کے تمام شعبے اصلاحات سے مستفید ہوں گےورلڈ بینک کے مطابق اصلاحات کے نافذ کے بعد اوسط ٹیرف خطے میں سب سے کم ہو جائیں گے،قرضوں کے حجم میں کمی آئی ہے نئے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کیلئے ریلیف کا فیصلہ کیا گیا ، تنخواہ دار طبقے کیلئے تمام ٹیکس سلیبز میں کمی کر دی گئی، چھ سے بارہ لاکھ تنخواہ ٹیکس کی شرح 1 فیصد ہو گی،بارہ لاکھ آمدن پر ٹیکس کی رقم 30 ہزار روپے سے کم کر کے 6 ہزار کی تجویز کی گئی ، بائیس لاکھ تک تنخواہ پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کر کے 11 فیصد مقرر کردی ، 22 سے 32 لاکھ تنخواہ پر ٹیکس شرح فیصد سے کم کر کے 23 فیصد کر دی گئی دس وزارتوں کے رائیٹ سائزنگ کی منظوری دی گئی ہے ،چالیس ہزار خالی اسامیوں کو ختم کر دیا گیا ہے،8 وزارتوں کے حوالے سے تجاویز زہر غور ہیں پنشن اسکیم میں اصلاحات کی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنا اہم ترجیح ہے،99 لاکھ مستحق خاندانوں کو امداد فراہم کی گئی،ڈیجیٹل گورننس کے حوالے سے پاکستان کی خدمات کو بین الاقوامی سطح پر اعتراف کیا گیا ہے،ایکسپورٹس کو بڑھانے کی منصوبہ بندی کر لی ہے،95 ہزار سے زائد ایس ایم ایز کو مالی امداد فراہم کی گئی،2028 تک ایس ایم ای فنانسنگ کو 1100 ارب تک پہنچانے کا عزم ہے،وزیراعظم سماجی اور اقتصادی ترقی کی سکیموں کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں،اوورسیز پاکستانی ہمارا اہم اثاثہ ہیں دو سالوں میں ترسیلات زر کے حجم میں اضافہ ہوا ہے ،خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے،اسٹیٹ بینک کے ذریعے ہر سال سول ایوارڈز دیئے جائیں گے،چھوٹے کسان کو قرض فراہم کے لئے اقدامات اٹھائے گئے ہیں،چھوٹے کسانوں کو بغیر ضمانت کے ایک لاکھ کے قرضے فراہم کریں گے،نیشنل سیڈ پالیسی منظور کے آخری مراحل میں ہے،کپاس کی فصل کی بحالی کے لئے مربوط کوششیں کی گئی ہیں،ایس آئی ایف سی نے سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے نمایاں مقام حاصل کیا ہے آئندہ مالی سال اقتصادی ترقی کی شرح 4.2 فیصد رہنے کا امکان ہے،وفاقی حکومت کی خالص آمدنی 11 ہزار 72 ارب ہوگی،جاری اخراجات کا تخمینہ 16286 ارب تخمینہ ہے،پنشن کے اخراجات کے 1055 ارب مختص کئے گئے ہیں،حکومت بی آئی ایس پی کی کوریج بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے ،کفالت پروگرام ایک کروڑ خاندانوں تک پہنچایا جائے گا، پی ایس ڈی پی میں ایک 328 ارب کی رقم ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر منصوبوں کی لئے مختص کی گئی ہے،بھارت نے پاکستان کے پانی کو روکنے کی دھمکی دی،پانی پاکستان کی بقا کا ضامن ہے اس میں کسی قسم کی رکاوٹ کو برداشت نہیں کیا جائے گا،بھارت کے ناپاک عزائم کا بھرپور توڑ کیا جائے گا،حکومت محدود وسائل کے باوجود پانی کے ذخائر کے منصوبوں پر عملدرآمد یقینی بنائے گی اگلے پانچ سالوں میں آئی سی ٹی ایکسپورٹ کو 25 ارب ڈالر تک بڑھانے کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے،انرجی سیکٹر کی 47 اسکیموں کے لیے 90 اعشاریہ 2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں تربیلا ففتھ ایکسٹینشن ایچ پی پی کے لیے 84 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں ،داسو پن بجلی کے لیے 10.9 ارب روپے، سوکی کناری کے لیے 3.5 ارب روپے رکھے گئے ہیں ،مہمند پن بجلی منصوبے کے لیے 2 ارب روپے رلھے گئے ہیں،دیامر بھاشا ڈیم کے لئے 32.7 ارب مہمند ڈیم کے لئے 35.7 ارب روپے مختص کئے گئے ہیںکے فور منصوبے کے لئے 3.2 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں،پٹ فیڈرل کینال کے لئے 1.8 ارب مختص کئے گئے ہیں سائنس اور ٹیکنالوجی میں 31 جاری اسکیموں کے لیے 4.8 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔صحت کے شعبے کے 21 اہم منصوبوں کے. لیے 14.3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ جائیداد کی خریداری پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح 4 فیصد سے کم کر کے 2.5 فیصد اور 3.5 سے کم کر کے 2 فیصد کرنے کی تجویز ہے ۔جائیداد کی خریداری پر ود ہولڈنگ ٹیکس 3 فیصد سے کم کر کے 1.5 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ کمرشل جائیدادوں، پلاٹس اور گھروں کی منتقلی پر گزشتہ سال عائد کی جانے والی 7 فیصد تک کی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز ہے۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی 31 اسکیموں کے لئے 4.8 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں،11 نئے دانش سکولوں کے قیام کی منصوبہ بندی کی گئی ہے،کل 9.8 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں وزیراعظم نے دانش یونیورسٹی اسلام آباد کے قیام کا اعلان کیا ہے،سندھ میں 2022 کے سیلاب سے متاثرہ اسکولوں کی تعمیر نو کے لئے تین ارب مختص کئے گئے ہیں،اسلام آباد کے کینسر ہسپتال کے قیام کے لئے 1.7 ارب اور ضروری آلات کی خریداری کے لئے 90 کروڑ مختص کئے ہیں مسلح افواج کے افسروں اور سپاہیوں کو خصوصی ریلیف الاؤنس دیا جائے گا،یہ اخراجات مالی سال 2025-26 کے دفاعی بجٹ سے پورے کئے جائیں گے، گریڈ ایک سے 22 تک کےوفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کی تجویز ہے،ریٹائرڈ وفاقی ملازمین کی پینشن میں 7 فیصد اضافہ کیا جائے گا،اہل ملازمین کو 30 فیصد کی شرح سے ڈسپیرٹی ریڈکشن الاؤنس دینے کی تجویز ہے،معذور ملازمین کے لیے خصوصی کنوینس الاؤنس 4 ہزار سے بڑھا کر چھ ہزار کیا جائے گا سرکاری ملازمین کے لیے پینشن کا نیا نظام لاگو کردیا ، پینشن میں اضافہ مہنگائی کی بنیاد پر کیا جائے گا ،شریک حیات کے انتقال کے بعد فیملی پینشن کی مدت 10 سال تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا ،ایک سے زیادہ پیشن کا خاتمہ کرنے کی سفارش کی گئی ،ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت کی صورت میں پینشن یا تنخواہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا پیٹرولیم مصنوعات پر 2.5 روپے فی لٹر کاربن لیوی عائد کی جائے گی، کاربن لیوی کو مالی سال 2026-27 میں بڑھا کر 5 روپے لٹر کردیا جائے گا نان فائلرز کے لیے نقد رقم نکلوانے پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح 0.6 سے بڑھا کر 1 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ،بینکوں سے کیش نکلوانے والوں کے لئے بری خبر آئی ،نان فائلر ہونگے تو ایک لاکھ پر پہلے چھ سو روپے ٹیکس کٹوتی ہوتی تھی ،اب یکم جولائی سے ایک لاکھ کیش نکلوانے پر ایک ہزار روپے ٹیکس کٹوتی ہوگی دو اور تین پہیوں کی گاڑی کے فروغ کے لیے نئی الیکٹریکل وہیکل پالیسی متعارف کروائی ہے،اس پالیسی کا مقصد پٹرول اور ڈیزل پر چلنے والی گاڑیوں کے بجائے الیکٹرک گاڑیوں کو ترجیح دینا ہے پالیسی کے تحت گاڑیوں کی تیاری اور فروخت کو فروغ دینے کے لیے ایک لیوی عائد کرنے کی تجویز ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *